قبائے لالہ و گل میں جھلک رہی تھی 💛💛خزاں بھری بہار میں رویا کیے بہار کو ہم
کپڑے گلے کے میرے 🧡🧡نہ ہوں آب دیدہ کیوں مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے💞💞 سارا اس مشت خایک کو ہم مسجود جانتے ہیں
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے💛💛 پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا😍😍 اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
آدم خایکی سے عالم کو جلا ہے🧡🧡 ورنہ آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف 😍😍عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
کیا آج کل سے اس کی یہ بے توجہی ہے منہ ان نے💛💛 اس طرف سے پھیرا ہے میر کب کا
وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں💞💞 سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دو آبا
یوں اٹھے آہ اس گلی سے😍😍 ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے🧡🧡 میرا فرمایا ہوا
روئے سخن ہے کیدھر اہل جہاں کا یا رب سب متفق ہیں😍😍 اس پر ہر ایک کا خدا ہے
دیدنی ہے شکستگی دل کی💛💛 کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے💞💞 نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
میر ہم مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے اس خرابے😍😍 میں میری جان تم آباد رہو
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں اس سے🧡🧡 آنکھیں لڑیں تو خواب کہاں
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے💞💞 سو بھی ایک عمر میں ہوا معلوم
گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر اپنا محبوب💛💛 وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں😍😍 تمام عمر میں نایکامیوں سے کام لیا
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا کیا🧡🧡 جدائی کو منہ دکھاؤں گا
شرط سلیقہ ہے ہر ایک امر میں💞💞 عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا💛💛 اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں🧡🧡 سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے💛💛 انتظار ہے اپنا