غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا چمک رہے ہیں💛💛 اندھیرے میں استخواں کیا کیا
سوچ کے گنبد میں ابھری ٹوٹتی یادوں کی گونج میری آہٹ سن کے🧡🧡 جاگی سیکڑوں قدموں کی گونج
اپنے ہونے کی تب و تاب سے باہر نہ ہوئے ہم ہیں🥰🥰 وہ سیپ جو آزادۂ گوہر نہ ہوئے
پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے حیرت کی بات یہ ہے💛💛 کہ برہم بھی ہم ہی تھے
دشت بے آب کی طرح گزری😍😍 زندگی خواب کی طرح گزری
اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے🧡🧡 خود عمر بھر اسیر لب مدعا رہے
دشت دل میں سراب تازہ ہیں😍😍 بجھ چکی آنکھ خواب تازہ ہیں
پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے ہے🥰🥰 جس کے دم سے گرمئ بازار کون ہے
زندگانی جاودانی بھی نہیں💛💛 لیکن اس کا کوئی ثانی بھی نہیں
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں 😍😍کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں
دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے🥰🥰 لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں زمیں کے🧡🧡 ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں
کب سے ہم لوگ اس بھنور میں ہیں🥰🥰 اپنے گھر میں ہیں یا سفر میں ہیں
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو خود سے💛💛 ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے😍😍 گی بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی
جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے🥰🥰 کچھ کہا جائے نہ سوچا جائے
بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا 😍😍 سب سے چھٌپ کر وہ کِسی کا دیکھنا اچھا لگا
میں دیکھتی ہوں، تو بس دیکھتی ہی رہتی ہوں وہ آئینے🧡🧡 میں بھی اپنے ہی رنگ چھوڑ گیا
یہ اور بات ٩ہے تٌجھ سے گِلہ نہیں کرتے💛💛 جو زخم تٌو نے دیۓ ہیں بھرا نہیں کرتے
نہ کوٸ غم خزاں کا ہے، نہ کوٸ خواہش ہے بہاروں کی😍😍 ہمارے ساتھ ہے امجدؔ کِسی کی یاد کا موسم
چہرے پہ میرے زٌلف کو پھیلاو کِسی دِن🥰🥰 کیا روز گرجتے ہو برس جاٶ کِسی دن
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم ذاد کو غم دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انسان 😍😍 بہت خوشی سے بھی تو ہو جاتی ہیں آنکھیں نم
کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے🧡🧡 امجدؔ ڈھونڈتی کس کو سر دشت ہوا ہے کب سے
کور چشموں کے لیے آئینہ خانہ معلوم 💛💛 ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے