ہوئی مدت کہ غالب مر گیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
عمر بھر کا یقین تھا ہمیں
آپ بھی کیا خوب آدمی نکلے
رہئیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
قید حیات و بند غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے، نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں