دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں😍😍 تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے پر❤️❤️ ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے💛💛 میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا
آگ تھے ابتدائے عشق میں💞💞 ہم اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور😍😍 شمع حرم ہو یا ہو دیا سومنات کا
عمر گزری دوائیں کرتے💛💛 میر درد دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو وگرنہ❤️❤️ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے
یہ توہم کا کارخانہ ہے💛💛 یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں😍😍 جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
منہ تکا ہی کرے ہے💞💞 جس تس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے❤️❤️ چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا یہ کہنے💞💞 کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے💛💛 میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خایک کے😍😍 پردے سے انسان نکلتے ہیں
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر کیا ربط محبت سے💞💞 اس آرام طلب کو
عشق ہے طرز و طور عشق کے❤️❤️ تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک سر سے💛💛 سودائے جستجو نہ گیا
سب پہ جس بار نے گرانی😍😍 کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
کام تھے عشق میں بہت💞💞 پر میر ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
میر بندوں سے کام کب نکلا مانگنا ہے💛💛 جو کچھ خدا سے مانگ
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے💞💞 درد بے اختیار اٹھتا ہے
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس😍😍 بن شوق نے ہم کو بے حواس کیا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس❤️❤️ تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی میر😍😍 جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو