دیکھیے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے 💕💕 شہر پر چھائی ہوئی سرخ گھٹا ہے کب سے
شعبدہ بازی آئینۂ احساس نہ پوچھ 💞💞 حیرت چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے کوئی💓💓 انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حسن شناسا نکلا🔥🔥 اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
اے کڑی چپ کے در و بام سجانے والے💕💕 منتظر کوئی سر کوہ ندا ہے کب سے
دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے💓💓 لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
حصول منزل دنیا کچھ ایسا کام نہ تھا مگر🔥🔥 جو راہ میں پتھر انا کے رکھے تھ
مٹا سکی نہ انہیں روز و شب کی بارش بھی🔥🔥 دلوں پہ نقش جو رنگ حنا کے رکھے تھے
تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب زمیں پہ ہم نے💞💞 ستارے بچھا کے رکھے تھے
ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے 💓💓 وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے
بکھر رہے تھے سو ہم نے اٹھا لیے خود ہی 💕💕 گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے
سموم وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا🔥🔥 وگرنہ ہم نے قرینے صبا کے رکھے تھے
بس ایک اشک ندامت نے صاف کر ڈالے 🔥🔥 وہ سب حساب جو ہم نے اٹھا کے رکھے تھے
حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے 💓💓 چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے
وہ اس طرح تھا مرے بازوؤں کے حلقے میں 🔥🔥 نہ دل کو چین تھا امجدؔ نہ بے قراری تھی
تماشا دیکھنے والوں کو کون بتلاتا 💓💓 کہ اس کے بعد انہی میں کسی کی باری تھی
ہجوم بڑھتا چلا جاتا تھا سر محفل بڑے💕💕 رسان سے قاتل کی مشق جاری تھی
کسی بھی ظلم پہ کوئی بھی کچھ نہ کہتا تھا نہ جانے🔥🔥 کون سی جاں تھی جو اتنی پیاری تھی
تمہارا آنا بھی اچھا نہیں لگا مجھ کو💞💞 فسردگی سی عجب آج دل پہ طاری تھی
طواف کرتے تھے اس کا بہار کے منظر💕💕 جو دل کی سیج پہ اتری عجب سواری تھی
جو پیار ہم نے کیا تھا وہ کاروبار نہ تھا نہ تم نے جیتی یہ بازی نہ میں نے ہاری تھی
لرزتے ہاتھوں سے دیوار لپٹی جاتی تھی💓💓 نہ پوچھ کس طرح تصویر وہ اتاری تھی
سواد شوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے🔥🔥 نہ مجھ کو اپنی خبر تھی نہ کچھ تمہاری تھی
جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی💕💕 گزارنی تھی مگر زندگی، گزاری تھی