وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا کہ🥺🥺 وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
کچھ تو مجبوریاں رہی🥺🥺 ہوں گی ہوں کوئی بےوفا نہیں ہوتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے😢😢 پاس گیا برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن بند مجھ پر😢😢 جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
وفا جس سے کی بے☹️☹️ وفا ہو گیا جسے بت بنایا خدا ہو گیا
چلے ہیں اِک بار پھر سے زندگی کی راہوں پے دعا کرنا😢😢 دوستوں اِس بار کوئی بے وفا نہ ملے
انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کو سکوں سے😢😢 کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
شوقِ وفا نہ 🥺🥺سہی خوفِ خدا تو رکھ
کل پر ہر رکھو وفا کی 😢😢باتیں میں آج بہت بجھا ہوا ہوں
ہم باوفا تھے اس لیے نظروں سے😢😢 گر گئے شاہد اُسے تلاش کسی بے وفا کی تھی
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے😢😢 معنی یہ تیری سادہ دِلی مار نہ ڈالے مجھ کو
وہ جن میں چمکتے تھے وفا کے موتی🥺🥺 یقین جانو وہ آنکھیں بےوفا نکلی
کون پریشان ہوتا ہے تیرے غم میں☹️☹️ فراز وہ اپنی ہی کسی بات پے رویا ہو گا
اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی جی🙄🙄 نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
میں نے کب مانگا ہے تم سے اپنی وفاوٰں کا سِلہ بس 🙄🙄درد دیتے رہو، محبت بڑھتی رہے گی
ثابت تو ہو گیا کہ میں بے وفا نہیں 🥺🥺یہ اور بات کہ میری دنیا اُجڑ گئی
لینا پڑھے گا عشق میں ترکِ وفا سے😢😢 کام پرہیز اِس مرض میں ہے بہتر علاج سے
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تیری ہرگز☹️☹️ گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے نبھائی ہو
لفظِ وفا سے اب وہ تاثر نا کر😢😢 قبول اِس عام فہم لفظ کے معنی بدل گئے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل میرے پتے😢😢 سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ہم سے بے وفائی کی انتہاء کیا پوچھتے ہو محسن وہ ہم سے😢😢 پیار سیکھتا رہا کسی اور کے لیے
شک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستوں اُس بے🥺🥺 وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں
بے وفائی کی سب کتابوں میں😢😢 تمہارے جیسی کوئی مثال نہیں
اِک عمر تک میں اُس کی ضرورت بنا رہا پھر🥺🥺 یوں ہوا کہ اُس کی ضرورت بدل گئی