اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں😭😭 رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ😭😭 نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں😫😫 رہا جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے😫😫 ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے💔💔 اسدؔ کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے😭😭 میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں😭😭 تو کیا ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے💔💔 دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور تنہا گئے😫😫 کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر😭😭 درخشاں پر میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے😭😭 پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے😭😭 عشق بن یہ ادب نہیں آتا
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں اپنے😭😭 سوائے کس کو موجود جانتے ہیں
وہ کہان گيا جو کہتا تھا؟ ٹوٹ کے بکھرو تو بتانا ہم کو ریت کے😫😫 زارون سے ھبی چون لوںگا تمھیں
آگ سے خاک😭😭 ہو گیے ہم نہ جانے کہاں کہو گيے ہم
کسو سے دل نہیں ملتا ہے💔💔 یا رب ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے💔💔 جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
یوں اٹھے آہ اس گلی سے😥😥 ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے کوئی بھی😫😫 لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں تری آنکھوں😭😭 کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا اگر😥😥 وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
کون روتا ہے یہاں رات کے سناٹے😫😫 میں میرے جیسا ہے کوئی عشق کا مارا ہوگا
دھیرے سے سرکتی ہے رات اُس کے آنچل کی😥😥 طرح اُس کا چہرا نظر اتا ہے جھیل پیں کنول کی طرح
اداسیوں سے وابستہ ہے یہ زندگی میری وصی خدا😭😭 گواہ ہے کے پھر بھی تجھے یاد کرتے ہیں