ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ چلے🥺🥺 گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں ہو🥺🥺 جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے ایسی رت میں😔😔 تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں
کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانیٔ دل زلزلوں😢😢 میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے ان اشکوں سے😞😞 کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا
شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے😔😔 جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
پلٹ کے آ گئی خیمے کی سمت پیاس مری پھٹے ہوئے🥺🥺 تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے
دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر😔😔 والوں نے لیا رخت سفر سناٹا
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ😔😔پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے🥺🥺 مگر بات ہے رسوائی کی
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں دیکھنا ہے😔😔 کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی 😞😞کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے پھیلتا جاتا ہے😔😔 پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
منت چارہ ساز کون کرے😔😔 درد جب جاں نواز ہو جائے
حال تم سُن لو میرا، دیکھ لو صورت میری درد 😢😢وہ چیز نہیں ہے کہ دِکھائے کوئی
ہمدردی نہ کرو مجھ سے اے میرے ہمدرد وہ بھی بڑے ہمدرد تھے🥺🥺 جو درد ہزاروں دے گئے
کسی سائے کی طرح بڑھتا ہے گھٹتا ہے😔😔، درد بھلا کب مرتا ہے
اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا نہ کچھ مرنے😔😔 کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
مصروف زندگی میں تیری یاد کے😔😔 سِوا آتا نہیں ہے کوئی میرا درد بانٹنے
راس آنے لگی دُنیا تو کہا دل نے کہ جا اب تجھے😞😞 درد کی دولت نہیں ملنے والی
آج تو دل کے😞😞 درد پر ہنس کر درد کا دل دُکھا دیا میں نے
یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں اب یاد 😢😢مجھے درد پرانے نہیں آتے
درد کی قدر۔۔۔ ہم کیا جانیں ہمیں سارے😔😔 ۔۔۔۔ مفت ملے ہیں
درد کی شام ہو یا سُکھ کا سویرا ہو سب 🥺🥺کچھ قبول ہے اگر ساتھ تیرا ہو